"قابض مافیا: عمران خان کے خلاف بوگس کیس کے ذریعے دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کا سامنا"


 ریٹائرڈ میجر جنرل عاصم منیر کی جانب سے آئین پاکستان کو روندتے ہوئے عمران خان کے خلاف بوگس کیس تیار کر کے نااہلی اور گرفتاری نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ قبضہ مافیا نے ہر حد پار کرنی ہے ،


 عمران خان نے ان کی ہر ڈیل کو ٹھکرا کر ثابت کیا ہے کہ وہ ان ڈفرز کے سامنے نہیں جھکے گا ،

 

  قوم نے ایک بار پھر سڑکوں پہ آ کر ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کے جبر و ستم کے بعد بھی اب لوگوں کو غلام رکھنا ممکن نہیں رہا ، حتمی فیصلہ عوام ہی کو کرنا ہے ، 

  

  دو خاندانوں نے غیر قانونی آرمی چیف کے ساتھ مل کر ایک جمہوری لیڈر کے خلاف سازش رچ کر ثابت کیا ہے کہ ان کے اندر آج بھی وہی خاکی خون دوڑ رہا ہے جس کی یہ پیدوار ہیں ، 

  

  اسٹبلشمنٹ کی جانب سے قومی لیڈر کے اغوا پہ ٹھٹھے اڑانے والے دانشوروں نے پھر سے ثابت کیا ہے کہ ان کا انسانی حقوق ، آزادی اظہار رائے ، پرائویسی ، سیاسی حقوق اور سول سپریمسی پہ کوئی اعتبار نہیں بلکہ عمران خان کی اسلام پسند امیج نے انھیں آج بھی تتے توے پہ بٹھایا ہوا ہے، 

  

  ادارے نے ایک ریٹائرڈ افسر کے حکم پہ عمل درآمد کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ نیچے سے اوپر تک سب کھوتی کے بچے ہیں ،


عمران خان اپنا کام کر چکا ہے۔ اس نے وہ سب بڑی سکرین پہ قوم کو دکھا دیا ہے جو پچہتر سالوں سے نظروں سے اوجھل تھا۔ قوم نے ایک ایک لمحہ دیکھ لیا یے۔ قبضہ مافیا ، ملک دشمن عناصر ، ترقی کی راہ میں رکاوٹ ، انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والے جابر ، قوم کا استحصال کرنے والے فاسق ۔۔ سب قوم کے سامنے کھل کر آ چکے ہیں۔ ہر برائی کا کھرا صرف ایک ادارے کی جانب جاتا ہے جو پچہتر سال سے بلاشرکت غیرے اس ملک پہ قابض ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اس جدوجہد کو باقاعدہ ڈائریکشن دے اور اس غلامی سے بایر نکے۔ عمران خان تو چند دنوں میں عوام کے بیچ ہو گا لیکن اب قابض مافیا سے آزادی کےلیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ 


ہم بحیثیت قوم انکا سوشل بائیکاٹ کر کے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ کتنے ہیں یہ ؟ چھ سات لاکھ 

اور ہم ؟ پچیس کروڑ۔ 

یہ کہیں دوسرے سیارے سے نہیں آئے ۔ یہ بھی ہم میں سے ہیں۔ ایک عام فوجی ہو یا جرنیل ، ان سے موت مرگ ختم کر دیں ۔ ان کی خوشی غمی میں آنا جانا بند کر دیں ، ان سے بات چیت تک ختم کردیں ، ان کی نسلوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں ، ہمہ قسمی لین دین بھی بند کر دیں ، ان کے جتنے پروجیکٹس چل رہے ہیں سب کی لسٹیں بنا کے عوام میں بانٹیں سوشل میڈیا پر تشہیر کریں، ان کی کسی کالونی میں پلاٹس لیں نہ انکی فیکٹری سے سمنٹ نہ انکے ہسپتالوں سے علاج نہ ان کے اداروں سے تعلیم اور نہ ہی انکے بنکس سے کوئی لین دین کریں۔ ان کا مکمل بائیکاٹ ہی قوم کو حقیقی آزادی دلا سکتا ہے۔ یہ باؤلے ہو چکے ہیں۔ ان کی طاقت کا گھمنڈ ختم کر کے واپس چوکیداری پہ کھڑا کرنا ہو گا جہاں یہ قومی لیڈروں کو صرف سیلوٹ مارنے کےلیے ترستے رہیں!!! 

آخر کیوں؟

 

آخر کیوں؟

He is an idiot


لندن میں آپ کو دلچسپ کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ تھرڈ وولڈ سے لوگ ہر قیمت پر لندن یا یورپ جانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی بھی جگاڑ لگانے میں مصروف ہیں۔ کچھ قانونی طریقوں سے لندن جاتے ہیں تو کئی ڈنکی یا غیرقانونی طریقوں سے جانا چاہتے ہیں اور راستے میں جانیں تک دے بیٹھتے ہیں۔ 

ابھی حالیہ ٹریجڈی نے لوگوں کے دل بہت دکھائے ہیں جب بڑی تعداد میں پاکستانی سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے جب ان کے کشتی یورپ کے ساحل پر ڈوب گئی۔ یورپ میں غیرقانونی طور پر داخلے کے لیے زیادہ تر پاکستانی ہیں کیونکہ یہ ایران ترکی کے زریعے اجنبی راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ ہندوستانی اگر چاہیں تو بھی وہ نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں پاکستان کے اندر سے غیرقانونی طور پر سفر کرنے میں بہت مشکلات ہیں۔ لہذا بھارتی طالب علم یا شہری زیادہ تر قانونی طور پر برطانیہ جاتے ہیں اور انہیں ویزے لینے میں زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آتی کیونکہ برطانیہ کے نزدیک بھارت کا ٹریک ریکارڈ بہت بہتر ہے۔ اب تو ویسے بھی برطانوی وزیراعظم بھارت نژاد ہے لہذا ان کے حوالے سے وہاں ماحول سازگار ہے ۔ بھارتیوں کے وہ مسائل بھی نہیں جو ہمارے پاکستانی بھائیوں کے ہیں۔ ماضی میں ہونے والی دشتگردی کی وجہ سے بھی پاکستانیوں اور مسلمانوں کو وہاں مسائل درپیش ہیں۔

ایک کہانی جو سننے کو ملی وہ ایک پاکستانی طالبعلم کے بارے میں تھی جو دس بارہ برس پہلے لندن پڑھنے آیا تھا۔ اس کا تعلق پاکستان کے اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ یونیورسٹی داخلہ ہوا تو ادھر ادھر آنا جانا شروع ہوا۔ جو پاکستانی لندن یا یورپ جائیں تو انہیں کلچرل شاکس ضرور لگتے ہیں جن کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔

جب برٹش کونسل پاکستانیوں کو سکالرشپ پر برطانیہ پڑھنے بھیجتی تھی تو کامیاب امیدواروں کو باقاعدہ برٹش کونسل بلا کر ان کلچرل شاکس پر بریف کیا جاتا تھا کہ آپ نے لندن یا کسی بھی برطانوی شہر پہنچ کر کیا رویہ رکھنا ہے،وہاں کے قوانین بارے کیا آگاہی رکھنی ہے، وہاں کا کلچر، رہن سہن، بات چیت یا ڈریس وغیرہ پاکستان سے کتنے مختلف ہیں اور آپ نے خود کو وہاں کیسے ایڈجسٹ کرنا ہے۔ اکثر پاکستانیوں کو ہمیشہ گھر سے ہی یہ بات سمجھائی جاتی ہےکہ آپ نے دوران سفر کسی بندے سے کوئی چیز لینی ہے نہ کھانی ہے اور نہ ہی ائرپورٹ پر کوئی آپ سے اچانک دوستی کر کے سامان پکڑا دے تو بھی نہیں لینا۔ 

لیکن اس کے باوجود بھی بہت واقعات ایسے ہوتے ہیں جن سے یہ سب بریفنگز یا کونسلنگ بیکار ہو جاتی ہے۔ انسانی لالچ کا بھی اپنا لیول ہے۔ اکثر لوگ پھنس جاتے ہیں۔ ایزی پیسہ کمانے کا جہاں بھی کوئی آپ کو آئیڈیا دے گا تو سمجھ لیں اس کے پیچھے کچھ جرم چھپا ہوا ہے۔ جو بندہ آپ کو چند گھنٹوں یا ایک گھنٹے کے لیے بڑی رقم آفر کررہا ہے تو واضح ہے اس میں گڑ بڑ ہے ورنہ وہ کام بندہ خود کر کے اپنا پیسہ بچا سکتا تھا۔ وہ کیونکر آپ کو لاکھوں روپے کسی ایسے کام کے دے رہا ہے جو وہ خود کرسکتا ہے ۔ ایک فراڈیے سے کسی نے پوچھا تھا آپ لوگ کیسے دوسروں کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔اس نے جواب دیا تھا جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم بھوکے نہیں مریں گے۔

یہی کچھ اس پاکستانی طالب علم ساتھ لندن میں ہوا جو وہاں پڑھنے گیا تھا۔ ایک دن اس لڑکے کو وہیں کسی نے اپروچ کیا کہ وہ اگر ان کا دو تین گھنٹے کا ایک کام کر دے تو وہ اسے ایک ہزار پونڈ دیں گے۔ کام بھی معمولی سا تھا۔ کپڑوں کی ایک نئی کھیپ آرہی تھی اسے ایک جگہ سے پک کر کے دوسری جگہ ڈراپ کرنا تھا۔ اب انیس بیس سالہ نوجوان کو لگا یہ تو راتوں رات اس کا جیک پاٹ لگ گیا تھا۔ ایک دو گھنٹے کا کام ہے جس میں ایک ہزار پونڈز اسے مل رہے تھے۔ اس دور میں لندن میں فی گھنٹہ ویجز پانچ چھ پونڈ کے قریب تھی۔ لہذا اگر وہ کام کرتا تو ایک ہزار پونڈز کمانے کے لیے اسے درجنوں گھنٹے کام کرنا تھا اور یہاں صرف ایک جگہ سے کپڑے اٹھا کر دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کرنے تھے۔ اسے بتایا گیا اسے زرا دھیان کرنا ہوگا کیونکہ یہ قیمتی کپڑے تھے۔ لڑکے نے سوچا یہ بھی کوئی کام تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کی ڈرائیو کا کام تھا۔

یوں وہ لڑکا تیار ہوگیا اور اس نےجا کر وہ کپڑے اٹھائے تاکہ اس جگہ پہنچائے جہاں کا اسے ایڈریس دیا گیا تھا۔

تاہم پولیس کو اس کیس کی مخبری ہوچکی تھی اور یوں جب وہ وہاں سے کپڑے اٹھا کر نکلا تو گرفتار کر لیا گیا۔ پتہ چلا ان کپڑوں میں ہیروئن چھپائی گئی تھی۔ اس لیے اسے استعمعال کیا گیا تھا ۔ یوں ایک ہزار پونڈز کی لالچ اسے پھنسا گئی۔ 

جب یہ خبر پیچھے پاکستان میں اس لڑکے کے خاندان تک پہنچی تو ان کے لیے قیامت کی گھڑی تھی۔ پتہ چلا اس مقدمے کی سزا چودہ برس ہوگی۔ 

اب والدین نے لندن میں وکیل کرنے تھے جن کی فیسیں بہت زیادہ تھیں۔ اچانک اتنی بڑی مصیبت پڑی تو پاکستانی والدین کے پاس پیسے بھی نہیں تھے کیونکہ بتایا گیا تھا کہ اس کا مقدمہ لڑنے پر چالیس ہزار پونڈز تک کا خرچہ ہوگا جس میں وکیلوں کی فیسیں بھی شامل ہوں گی۔ لڑکے کے باپ کو فورا کچھ نہ سوجھا اور وہ اتنے پیسے فورا ارینج نہ کرسکا تو اس نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی طرح اپنے بچے کو بچائے۔ یوں گھر بیچ کر اس نے لندن وکیلوں کو فیسیں ادا کیں لیکن وکیل ابھی بھی یہ یقین نہیں دلا رہے تھے کہ وہ اسے چھڑا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا ان کا بیٹا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا جس میں کوئی شک کی گنجائش بھی نہیں تھی لہذاوہ کس بیناد پر عدالت کو قائل کرسکتے تھے کہ وہ بے گناہ تھا اور اسے استمعال کیاگیاتھا۔ ڈرگ کے حوالے سے ججز ویسے بھی بہت سخت تھے اور رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

یوں جہاں گھر بیچ کر پونڈز خریدے گئے وہاں یہ بھی ننانوے فیصد خطرہ موجود تھا کہ چودہ برس سزا ہوجائے گی۔

اب وکیل کی تلاش شروع ہوئی تو آخر لندن میں ایک ہندوستانی پنجاب سے ایک وکیل ملا جس نے وہ مقدمہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا This boy is an idiot۔

اس پر اسے کہا گیا جی وہ تو ہے ۔ ہمیں بھی علم ہے کہ وہ ایڈیٹ ہے۔ پر اب کیا کریں۔

ہندوستانی وکیل پھر بولا نہیں وہ ایڈیٹ ہے۔

اب آتے جاتے اس وکیل نے ایک ہی بات کہنی شروع کر دی The boy is idiot.

اب سب کہیں ہمیں پتہ ہے وہ بیوقوف ہےاب کیا کریں۔ یہ کون سی نئی بات آپ ہمیں سمجھا رہے ہیں۔ وہ وکیل پھر کچھ سوچتا اور کچھ دیر بعد کہتا He is an idiot.

سب پریشان

کہ یہ وکیل عدالت میں کیا مقدمہ لڑے گا جو پراسیکویشن میں کمزوریاں تلاش کر کے لڑکے کو رہا کرانے اور سزا سے بچانے کی بجائے الٹا اپنے کلائنٹ بارے دن رات کہتا رہتا ہے He is an idiot

خیر عدالت میں مقدمہ شروع ہوا۔ اس دوران میں وہ لڑکا چھ ماہ جیل گزار چکا تھا۔ جج نے وکیل صاحب سے پوچھا تو آگے سے ہندوستانی پنجابی وکیل نے ایک ہی جواب دیا مائی لاڑڈ The Boy is an idiot.

جج نے پوچھا اس کا مقدمے سے کیا تعلق ہے۔ پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ وکیل بولا یہی تو میرا پوائنٹ ہے کہ وہ بیوقوف ہے۔ اب آپ بتائیں کوئی سمجدار انیس بیس برس کا نوجوان محض ایک ہزار پونڈز کے لیے چودہ برس جیل جانا پسند کرے گا؟ کیا کوئی عقلمند انسان یہ کام کرسکتا ہے۔ کیا ایک ہزار پونڈز کی خاطر آپ زندگی کے چودہ برس جیل میں گزار سکتے ہیں؟ جس نوجوان کو اس چھوٹی سی بات کا علم نہیں اسے آپ سمجھدار کہیں گے یا ایڈیٹ؟ 

وکیل نے اتنی بار اس لڑکے بارے لفظ ایڈیٹ اپنے دلائل میں استمعال کیا کہ پوری عدالت قائل ہوگئی کہ وہ لڑکا تو واقعی ایڈیٹ ہے جس نے ایک ہزار پونڈز کی خاطر اتنا بڑا رسک لے کر اپنی زندگی تباہ کر لی۔

عدالت نے اسے اس نکتے پر بری کر دیا کہ وہ ایڈیٹ ہے۔ جب وہ نوجوان جیل سے رہا ہو کر باہر نکلا تو کسی نے کچھ پوچھا تو بولا

 I am an idiot.

نو مئی کا ری ایکشن: بندیال نو مئی اور گڈ ٹو سی یو

 

 

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اگر بندیال نو مئی کے دو دن بعد اسکو گڈ ٹو سی یو کہہ کے اتنی عزت دے کر باہر نہ نکالتا تو شاید اس کے حالات مختلف ہوتے، نو مئی کا ری ایکشن اتنا شدید نہ ہوتا، صرف انکو پکڑتے جو وہاں گئے تھی، پوری پارٹی کی ماں بہن نہ ہوتی-

اب ہوا یہ کہ سب کو پتا چل گیا کہ نو مئی کو کہیں چند سو اور کہیں ہزار دو ہزار بندے نکلے تھے۔۔۔اگر تیس چالس ہزار لاہور میں ہوتے تو شاید یہ سب نہ ہوتا جو ہو گیا۔۔۔اسکی طاقت عیاں ہو گئی، کہ بس یہ میکسیمم اتنے ہی نکال سکتا ہے-

اس لئے کل سزا سنا کے پکڑ بھی لیا، احتجاج پندرہ بیس تک محدود ہو گیا، حالاں کہ جس کیس میں پکڑا ہے اس میں جلد بازی میں آرڈر کچھ اتنا مظبوط نہیں، اسکو اپیل میں فائدہ ہو سکتا ہے۔۔۔لیکن لگتا یہ ہے کہ اصل مقصد اسکو کسی بھی بہانے پکڑنا تھا تا کہ رہی سہی سٹریٹ پاور بھی سامنے آ جائے۔۔اسکی اصل گرفتاریاں دیگر کیسوں میں ہوں گی، اور پورے اطمنان کے ساتھ ہوں گی کہ سالے کے لئے سوشل میڈیا پر شور تو مچے گا لیکن سڑکوں پر کسی نے نہیں آنا۔۔

لاہور کے ایک بڑے صحافی دوست نو مئی سے دس دن  پہلے کراچی تشریف لائے تھے ، یہی گفتگو تھی کہ ری ایکشن کتنا ہو گا۔۔اور ہم دونوں کی متفقہ رائے تھی کہ دو دن تین دن سے زیادہ نہیں۔۔

عدالتی چیلنجوں کے سامنے نااہلی اور استریٹیجیوں کا مقابلہ


 خان پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی سزا کو معطل کرانے کی درخواست ڈال سکتا ہے، لیکن باہر آنے پر نیب پکڑ لے گی، اسکو معطل کرائے گا، نو مئی پر پکڑ لیں گے، وہاں سے معطل ہوگی تو سائفر کیس تیار ہے، جب اس سے بھی وقتی چھٹکارا ملے گا تو الیکشن کمیشن اپنی توہین پر پکڑوا دے گا۔ابھی فارن فنڈنگ تو چل ہی رہا ہے۔۔

میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اڈیالہ میں آرام سے رہے، وکیل کیس نمٹتے رہیں، یہ کچھ کتابیں وغیرہ پڑھ لے۔۔۔وظائف وغیرہ بی بی سے پوچھ لے، انہیں پڑھے۔۔۔سنا ہے نواز شریف ولے بیرک میں رہے گا۔۔۔وہاں جو اے سی اس نے اتروائے تھے دوبارہ لگا دیں۔۔

مصیبت کے دن ہمت سے کاٹے، سب نے کاٹے ہیں، یہ کونسا آسمان سے اترا ہے سالا کہ جیل میں نہ رھ سکے۔دوا دارو ملتے رنی چاہیے۔۔اے کلاس دو ۔۔اسکا حق ہے، پکڑا چوری پر گیا ہے لیکن ہے تو سابقہ وزیر اعظم۔۔

"میرا بیٹا، ڈاکٹر ماجد خان"

  آج میں نے اپنے بیٹے ڈاکٹر محمد ماجد خان کو انگلینڈ رخصت کیا. ہم دونوں اس بات پر اداس نہیں تھے کہ ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے لیکن اس بات پ...