آخر کیوں؟

 

آخر کیوں؟

He is an idiot


لندن میں آپ کو دلچسپ کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ تھرڈ وولڈ سے لوگ ہر قیمت پر لندن یا یورپ جانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی بھی جگاڑ لگانے میں مصروف ہیں۔ کچھ قانونی طریقوں سے لندن جاتے ہیں تو کئی ڈنکی یا غیرقانونی طریقوں سے جانا چاہتے ہیں اور راستے میں جانیں تک دے بیٹھتے ہیں۔ 

ابھی حالیہ ٹریجڈی نے لوگوں کے دل بہت دکھائے ہیں جب بڑی تعداد میں پاکستانی سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے جب ان کے کشتی یورپ کے ساحل پر ڈوب گئی۔ یورپ میں غیرقانونی طور پر داخلے کے لیے زیادہ تر پاکستانی ہیں کیونکہ یہ ایران ترکی کے زریعے اجنبی راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ ہندوستانی اگر چاہیں تو بھی وہ نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں پاکستان کے اندر سے غیرقانونی طور پر سفر کرنے میں بہت مشکلات ہیں۔ لہذا بھارتی طالب علم یا شہری زیادہ تر قانونی طور پر برطانیہ جاتے ہیں اور انہیں ویزے لینے میں زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آتی کیونکہ برطانیہ کے نزدیک بھارت کا ٹریک ریکارڈ بہت بہتر ہے۔ اب تو ویسے بھی برطانوی وزیراعظم بھارت نژاد ہے لہذا ان کے حوالے سے وہاں ماحول سازگار ہے ۔ بھارتیوں کے وہ مسائل بھی نہیں جو ہمارے پاکستانی بھائیوں کے ہیں۔ ماضی میں ہونے والی دشتگردی کی وجہ سے بھی پاکستانیوں اور مسلمانوں کو وہاں مسائل درپیش ہیں۔

ایک کہانی جو سننے کو ملی وہ ایک پاکستانی طالبعلم کے بارے میں تھی جو دس بارہ برس پہلے لندن پڑھنے آیا تھا۔ اس کا تعلق پاکستان کے اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ یونیورسٹی داخلہ ہوا تو ادھر ادھر آنا جانا شروع ہوا۔ جو پاکستانی لندن یا یورپ جائیں تو انہیں کلچرل شاکس ضرور لگتے ہیں جن کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔

جب برٹش کونسل پاکستانیوں کو سکالرشپ پر برطانیہ پڑھنے بھیجتی تھی تو کامیاب امیدواروں کو باقاعدہ برٹش کونسل بلا کر ان کلچرل شاکس پر بریف کیا جاتا تھا کہ آپ نے لندن یا کسی بھی برطانوی شہر پہنچ کر کیا رویہ رکھنا ہے،وہاں کے قوانین بارے کیا آگاہی رکھنی ہے، وہاں کا کلچر، رہن سہن، بات چیت یا ڈریس وغیرہ پاکستان سے کتنے مختلف ہیں اور آپ نے خود کو وہاں کیسے ایڈجسٹ کرنا ہے۔ اکثر پاکستانیوں کو ہمیشہ گھر سے ہی یہ بات سمجھائی جاتی ہےکہ آپ نے دوران سفر کسی بندے سے کوئی چیز لینی ہے نہ کھانی ہے اور نہ ہی ائرپورٹ پر کوئی آپ سے اچانک دوستی کر کے سامان پکڑا دے تو بھی نہیں لینا۔ 

لیکن اس کے باوجود بھی بہت واقعات ایسے ہوتے ہیں جن سے یہ سب بریفنگز یا کونسلنگ بیکار ہو جاتی ہے۔ انسانی لالچ کا بھی اپنا لیول ہے۔ اکثر لوگ پھنس جاتے ہیں۔ ایزی پیسہ کمانے کا جہاں بھی کوئی آپ کو آئیڈیا دے گا تو سمجھ لیں اس کے پیچھے کچھ جرم چھپا ہوا ہے۔ جو بندہ آپ کو چند گھنٹوں یا ایک گھنٹے کے لیے بڑی رقم آفر کررہا ہے تو واضح ہے اس میں گڑ بڑ ہے ورنہ وہ کام بندہ خود کر کے اپنا پیسہ بچا سکتا تھا۔ وہ کیونکر آپ کو لاکھوں روپے کسی ایسے کام کے دے رہا ہے جو وہ خود کرسکتا ہے ۔ ایک فراڈیے سے کسی نے پوچھا تھا آپ لوگ کیسے دوسروں کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔اس نے جواب دیا تھا جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم بھوکے نہیں مریں گے۔

یہی کچھ اس پاکستانی طالب علم ساتھ لندن میں ہوا جو وہاں پڑھنے گیا تھا۔ ایک دن اس لڑکے کو وہیں کسی نے اپروچ کیا کہ وہ اگر ان کا دو تین گھنٹے کا ایک کام کر دے تو وہ اسے ایک ہزار پونڈ دیں گے۔ کام بھی معمولی سا تھا۔ کپڑوں کی ایک نئی کھیپ آرہی تھی اسے ایک جگہ سے پک کر کے دوسری جگہ ڈراپ کرنا تھا۔ اب انیس بیس سالہ نوجوان کو لگا یہ تو راتوں رات اس کا جیک پاٹ لگ گیا تھا۔ ایک دو گھنٹے کا کام ہے جس میں ایک ہزار پونڈز اسے مل رہے تھے۔ اس دور میں لندن میں فی گھنٹہ ویجز پانچ چھ پونڈ کے قریب تھی۔ لہذا اگر وہ کام کرتا تو ایک ہزار پونڈز کمانے کے لیے اسے درجنوں گھنٹے کام کرنا تھا اور یہاں صرف ایک جگہ سے کپڑے اٹھا کر دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کرنے تھے۔ اسے بتایا گیا اسے زرا دھیان کرنا ہوگا کیونکہ یہ قیمتی کپڑے تھے۔ لڑکے نے سوچا یہ بھی کوئی کام تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کی ڈرائیو کا کام تھا۔

یوں وہ لڑکا تیار ہوگیا اور اس نےجا کر وہ کپڑے اٹھائے تاکہ اس جگہ پہنچائے جہاں کا اسے ایڈریس دیا گیا تھا۔

تاہم پولیس کو اس کیس کی مخبری ہوچکی تھی اور یوں جب وہ وہاں سے کپڑے اٹھا کر نکلا تو گرفتار کر لیا گیا۔ پتہ چلا ان کپڑوں میں ہیروئن چھپائی گئی تھی۔ اس لیے اسے استعمعال کیا گیا تھا ۔ یوں ایک ہزار پونڈز کی لالچ اسے پھنسا گئی۔ 

جب یہ خبر پیچھے پاکستان میں اس لڑکے کے خاندان تک پہنچی تو ان کے لیے قیامت کی گھڑی تھی۔ پتہ چلا اس مقدمے کی سزا چودہ برس ہوگی۔ 

اب والدین نے لندن میں وکیل کرنے تھے جن کی فیسیں بہت زیادہ تھیں۔ اچانک اتنی بڑی مصیبت پڑی تو پاکستانی والدین کے پاس پیسے بھی نہیں تھے کیونکہ بتایا گیا تھا کہ اس کا مقدمہ لڑنے پر چالیس ہزار پونڈز تک کا خرچہ ہوگا جس میں وکیلوں کی فیسیں بھی شامل ہوں گی۔ لڑکے کے باپ کو فورا کچھ نہ سوجھا اور وہ اتنے پیسے فورا ارینج نہ کرسکا تو اس نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی طرح اپنے بچے کو بچائے۔ یوں گھر بیچ کر اس نے لندن وکیلوں کو فیسیں ادا کیں لیکن وکیل ابھی بھی یہ یقین نہیں دلا رہے تھے کہ وہ اسے چھڑا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا ان کا بیٹا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا جس میں کوئی شک کی گنجائش بھی نہیں تھی لہذاوہ کس بیناد پر عدالت کو قائل کرسکتے تھے کہ وہ بے گناہ تھا اور اسے استمعال کیاگیاتھا۔ ڈرگ کے حوالے سے ججز ویسے بھی بہت سخت تھے اور رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

یوں جہاں گھر بیچ کر پونڈز خریدے گئے وہاں یہ بھی ننانوے فیصد خطرہ موجود تھا کہ چودہ برس سزا ہوجائے گی۔

اب وکیل کی تلاش شروع ہوئی تو آخر لندن میں ایک ہندوستانی پنجاب سے ایک وکیل ملا جس نے وہ مقدمہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا This boy is an idiot۔

اس پر اسے کہا گیا جی وہ تو ہے ۔ ہمیں بھی علم ہے کہ وہ ایڈیٹ ہے۔ پر اب کیا کریں۔

ہندوستانی وکیل پھر بولا نہیں وہ ایڈیٹ ہے۔

اب آتے جاتے اس وکیل نے ایک ہی بات کہنی شروع کر دی The boy is idiot.

اب سب کہیں ہمیں پتہ ہے وہ بیوقوف ہےاب کیا کریں۔ یہ کون سی نئی بات آپ ہمیں سمجھا رہے ہیں۔ وہ وکیل پھر کچھ سوچتا اور کچھ دیر بعد کہتا He is an idiot.

سب پریشان

کہ یہ وکیل عدالت میں کیا مقدمہ لڑے گا جو پراسیکویشن میں کمزوریاں تلاش کر کے لڑکے کو رہا کرانے اور سزا سے بچانے کی بجائے الٹا اپنے کلائنٹ بارے دن رات کہتا رہتا ہے He is an idiot

خیر عدالت میں مقدمہ شروع ہوا۔ اس دوران میں وہ لڑکا چھ ماہ جیل گزار چکا تھا۔ جج نے وکیل صاحب سے پوچھا تو آگے سے ہندوستانی پنجابی وکیل نے ایک ہی جواب دیا مائی لاڑڈ The Boy is an idiot.

جج نے پوچھا اس کا مقدمے سے کیا تعلق ہے۔ پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ وکیل بولا یہی تو میرا پوائنٹ ہے کہ وہ بیوقوف ہے۔ اب آپ بتائیں کوئی سمجدار انیس بیس برس کا نوجوان محض ایک ہزار پونڈز کے لیے چودہ برس جیل جانا پسند کرے گا؟ کیا کوئی عقلمند انسان یہ کام کرسکتا ہے۔ کیا ایک ہزار پونڈز کی خاطر آپ زندگی کے چودہ برس جیل میں گزار سکتے ہیں؟ جس نوجوان کو اس چھوٹی سی بات کا علم نہیں اسے آپ سمجھدار کہیں گے یا ایڈیٹ؟ 

وکیل نے اتنی بار اس لڑکے بارے لفظ ایڈیٹ اپنے دلائل میں استمعال کیا کہ پوری عدالت قائل ہوگئی کہ وہ لڑکا تو واقعی ایڈیٹ ہے جس نے ایک ہزار پونڈز کی خاطر اتنا بڑا رسک لے کر اپنی زندگی تباہ کر لی۔

عدالت نے اسے اس نکتے پر بری کر دیا کہ وہ ایڈیٹ ہے۔ جب وہ نوجوان جیل سے رہا ہو کر باہر نکلا تو کسی نے کچھ پوچھا تو بولا

 I am an idiot.

Comments

Popular posts from this blog

"قابض مافیا: عمران خان کے خلاف بوگس کیس کے ذریعے دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کا سامنا"

نو مئی کا ری ایکشن: بندیال نو مئی اور گڈ ٹو سی یو