بجلی مہنگی کیسے ہوئی ؟؟؟

 


بجلی مہنگی کیسے ہوئی ؟؟


بجلی کے بلز نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ اب تو فی یونٹ شاید پچاس روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ مجھے خود بجلی کے بل نے گھبرا دیا ہے— لیکن مجھےکچھ اندازہ ہے کہ بجلی کا یہ بم کیسے ہمارے سروں پر پھٹا ہے۔

اب جب آپ کسی مسلے کی وجہ جانتے ہوں تو پھر دو کام ہوتے ہیں۔ آپ کو پورے ایشو کی سمجھ ہے لہذا آپ آرام سے خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ محترم رولا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صبر کر کے زندگی گزاریں کیونکہ آپ کو علم ہے۔ رولا ڈالنے کا فائدہ؟ 

دوسرا آپ پر سنگین اثر ہوتا ہے کہ آپ کو معاملے کی سنگینی کا علم نہیں ہوتا ۔ لاعلمی ہر معاملے میں بھی رحمت کا سبب نہیں ہوتی۔ بلکہ لاعلمی ایک بڑا عذاب بن کر آپ پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ 

کم از کم بجلی کے مہنگے یونٹس، بے تحاشہ ٹیکسز کی وجہ سے اس وقت لوگوں کی بری حالت ہے۔ آپ جتنی بھی کم بجلی استمعال کر لیں پھر بھی آپ کا بل پانچ دس ہزار سے کم نہیں آرہا۔

اس کی ایک بڑی وجہ تو آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط ہیں جس کی تحت اب کم یونٹس والوں کو دی گئی رعایت مزید کم کر دی گئی ہے لہذا وہ طبقات جو پہلے بچے ہوئے تھے وہ بھی اب اس میں پھنس گئے ہیں۔

اب زرا دیکھتے ہیں کہ ان تیس برسوں میں بجلی کیوں مہنگی ہونی شروع ہوئی۔ ایک دو روپے فی یونٹس سے اب یہ پچاس روپے یونٹس تک کیسے پہنچ گئی ہے۔

یہ وہ دور تھا جب بجلی ابھی دیہاتوں تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر 1980 کی دہائی میں بجلی دیہاتوں تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت تک جو بجلی تربیلا ڈیم یا دیگر ایسے سستے زرائع سے پیدا ہورہی تھی وہ ضروریات کسی حد تک پورا کررہی تھی۔ دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ کر کے بھی کام چلا لیا جاتا تھا۔ لیکن جب انیس سو نوے کی دہائی شروع ہوئی تو جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا وہیں زیادہ سے زیادہ دیہاتوں تک بجلی پہنچنے لگی۔ ہر ایم پی اے اور ایم این اے یا وزیر پر ووٹ لینے کے لیے دبائو بڑھا کہ ووٹ لینے ہیں تو ہمیں بجلی دیں۔ یوں بجلی ایک بینادی ضرورت کی بجائے ایک سیاسی رشوت بنتی چلی گئی۔ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ بجلی کی کھپت بڑھنے سے بجلی کہاں سے لائیں گے۔ اس کا ایک حل کالا باغ ڈیم تھا جس سے ہزاروں میگا واٹس بجلی پیدا کی جاسکتی تھی اور وہ بھی سستی ترین۔ لیکن اس پر خیبرپختون خواہ اور سندھ نے رولا ڈال دیا۔ جہاں ایک وجہ ان علاقے کے لوگوں کے دیگر خدشات تھے وہیں ان دونوں صوبوں کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم پنجاب میں بن گیا تو پھر وہ بھی مرکز سے اس طرح بجلی کی رائلٹی لے گا جیسے خیبرپختون خواہ تربیلا ڈیم کی لے رہا تھا۔ جبکہ سندھ کو خطرہ تھا ان کا پانی پنجاب روک لے گا۔ یوں ان دونوں صوبوں کے سیاستدانوں نے دونوں صوبوں کی عوام کو بڑھکایا اور پوری قوم تقسیم ہوئی اور وہ منصوبہ جو کاشتکاری کے علاوہ ہماری مستقبل کی بجلی کی ضروریات پوری کرسکتا تھا وہ لٹک گیا۔ حکمرانوں اور پالیسی میکرز نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ بھی کالا باغ ڈیم کے علاوہ کسی اور ڈیم پر کام نہیں کریں گے۔ چاہتے تو وہ اس وقت دیگر ڈیمز پر کام شروع کر دیتے جہاں سےسستی بجلی مل سکتی۔ یوں قوم نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کر کے اپنے لیے مہنگی بجلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کا فی یونٹ تقریبا پچاس پیسے فی یونٹ کے قریب تھا۔

جب بجلی ہر دیہات پہنچ گئی تو پتہ چلا کہ اب بجلی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ہاوسنگ سوسائیٹز کلچر نے سر اٹھایا۔ اب ہر جگہ نئی نئی سوسائٹیز نظر آنے لگیں۔ زراعت کا کلچر بھی بدلہ ۔ جو کھیت کبھی کنویں اور بیلوں کی جوڑی سے پانی لیتے تھے اب وہاں بجلی کے کنکشن لگ گئے۔ بجلی کی موٹریں لگ گئیں جس سے آپ کی زرعی پروڈکشن تو بڑھ گئی لیکن ساتھ میں پروڈکشن لاگت بھی بڑھتی چلی گئی ۔ جس کھیت کو کبھی بیلوں کی جوڑی صبح شام اپنے ہی کھیت کے کاٹے بھوسہ اور سبزے کو کھا کر مفت میں سیراب کر دیتے تھے اب وہاں کسان کو ہزاروں کا بل آنے لگا۔

ہر گھر میں بجلی کے بلب لگ گئے۔ پھر پنکھا لگا۔ اس کے بعد ٹی وی کی باری آئی۔ پہلے بجلی گائوں کے چند گھروں میں آئی۔ کسی ایک بڑے زمیندار نے ٹی وی خرید لیا تو پورا گائوں وہاں جا کر دیکھ لیتا۔ اب ہر گھر کو بجلی، پنکھا اور ٹی وی درکار تھا۔ یوں بجلی کی کھپت دھیرے دھیرے بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح شہروں کے غریب علاقوں میں دیہاتوں سے آنے والوں نے بھی اپنی جھگیاں اور کچے گھر ڈال کر بجلی کے کھمبوں پر تاریں ڈال دیں۔

اس دوران جو لوگ اندرون شہر رہتے تھے وہاں بچے بڑے ہوئے تو انہیں بڑے اور الگ گھروں کی ضرورت پیش آئی۔ یہ کچھ دیہاتوں میں ہوا۔ اب پڑھے لکھے بچے ایک مکان میں رہنے کو تیار نہ تھے۔ آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی ۔ یوں بزنس مین آگے بڑھے اور انہوں نے آبادی کے اس بڑھتے بم کو گود میں لے لیا۔ شہر کے ساتھ ساتھ زرعی رقبوں کو خرید کر انہیں ہاوسنگ سوسائیٹز میں بدل دیا گیا جہاں لوگوں نے بڑی تعداد میں شفٹ ہونا شروع کر دیا۔ ہر ہاوسنگ سوسائٹی کی کامیابی کی بڑی وجہ بجلی اور گیس کا کنکشن تھا۔ یوں دھڑا دھڑ ان ہاوسنگ سوسائٹیز نے بجلی کے بڑے بڑے ٹرانسفارمرز لگوائے اور بجلی کی کھپت بڑھتی چلی گئی۔

اس دوران اب تقریبا ہر جگہ بجلی کا جال بچھ چکا تھا۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ دیہاتوں یا ہاوسنگ سوسائٹیز میں اس وجہ سے بجلی کے کنکشن نہ دیں کہ پیچھے سے بجلی کی سپلائی کم ہو رہی تھی۔ اب کیونکہ بجلی ایک ووٹ کی شکل بھی اختیار کر چکی تھی لہذا ہر الیکشن سے پہلے واپڈا کھمبے لے کر پہنچ جاتا تاکہ حکومتی امیدوار کو وہ کھمبے دکھا کر ووٹ مل سکیں۔

یوں بجلی کا ایشو گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ لیکن بجلی کہاں سے آئے گی۔ یہ کوئی نہ سوچ رہا تھا۔

اس کا وقتی حل یہ نکالا گیا کہ دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ شروع کی جائے۔ دیہاتی لوگ پہلے بھی کھلی فضا میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ گرمیاں کھیتوں میں درختوں تلے گزار دیں گے۔ رات کو بھی کھلی فضا میں وہ سو کر گزارہ کر لیں گے جیسے وہ صدیوں سے کرتے آئے تھے۔ لیکن شہروں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں کرنی کیونکہ وہاں لوگ حبس اور گرمی افورڈ نہیں کرپائیں گے۔

یوں بجلی کی کمی پوری کرنے کے کیے دیہاتوں کو پندرہ پندرہ بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ دیہاتوں سے کبھی احتجاج کی آواز نہ اٹھی اور اگر چند مقامی اخبارات میں کسی نے ایک آدھ بیان داغ بھی دیا تو اسلام آباد بیٹھے حکمرانوں یا بابوز کے کانوں پر اس کا کیا اثر ہونا تھا۔

لیکن دھیرے دھیرے اس بجلی کے ایشو نے شہروں کا رخ کر لیا جہاں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور ہاوسنگ سوسائٹیز جہاں کھلی فضا اور زمینوں پر قبضہ کرتی جارہی تھیں جس وجہ سے گرمی کا اثر مزید تیز ہورہا تھا وہیں کچی آبادیاں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھیں۔ یوں انیس سو نوے کی دہائی کے پہلے چند برسوں میں شہروں میں پہلی دفعہ بجلی کے ایشو نے بڑے پیمانے پر سر اٹھایا اور ہر طرف شور مچ گیا کہ پاکستان میں بدترین لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ میڈیا جو دیہاتوں میں ہونے والی لوڈشیڈنگ پر کان بند کیے بیٹھا تھا اب جب اسے خود گرمی محسوس ہوئی تو اس کی چیخیں نکلیں تو ساتھ ہی پتہ چلا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ نئے بجلی پیدا کرنے کے یونٹس نہیں لگے۔ نئے ڈیم نہیں بنے جو بجلی پیدا کرتے۔ نیوکلیر سے بجلی بھی کم پیدا ہورہی تھی۔ وہ بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس گیپ کو فل نہیں کرسکتی تھی۔

یوں جیسے کبھی بجلی کے کنکشن سیاسی ایشوز بن گئے تھے اب لوڈشیڈنگ اس سے بڑا ایشو بن گئی۔

اب بجلی کی ڈیمانڈ تو آسمان  تک پہنچ گئی تھی لیکن بجلی کہاں سے لاتے۔

اس کا حل 1994 تلاش میں کیا گیا۔۔ ایک نیا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایسا تجربہ تھا جس نے آنے والے برسوں میں قوم کی چیخیں نکلوانی تھیں۔اب آپشن آپ کے پاس تھا۔ لوڈشیڈنگ، اندھیرے یا مہنگی بجلی۔ قوم نے ڈیمز پر لڑ لڑ کر اپنے پائوں پر ایسا کلہاڑا مارا جس نے آنے والے برسوں میں اسی قوم کا بٹھہ بٹھا دینا تھا۔

(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

Top 10 bedtime habits you must avoid

کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے

Top 50 attitude bio ideas for boys in fancy words with cool emoji's