بجلی مہنگی کیسے ہوئی ؟

 

بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟

قسط ۲


بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پہلی دفعہ یہ سنا گیا کہ بجلی اب پاور پلانٹس کے زریعے پیدا کی جائے گی۔ مطلب پہلے بجلی زیادہ ڈیمز یا نیوکلیر سے بنتی تھی تو اب فیول سے بنائی جائے گی۔ پرائیویٹ پاور پلانٹس بجلی بنا کر حکومت پاکستان کو بیچا کریں گے اور ان کا فی یونٹ ریٹ دیگر بجلی پیدا کرنے کے زرائع سے زیادہ ہوگا۔

پرائیوئٹ سیکٹر کے ساتھ جو معاہدے کیے گئے وہ ڈالروں میں تھے۔وجہ یہ بتائی گئی ایک تو پاور پروڈیوسر یا سرمایہ کار غیرملکی تھے جو اپنے سرمائے سے پاور پلانٹس لگا رہے تھے لہذا انہیں ڈالر کا ریٹ اور ڈالروں میں ہی ادائیگی کرنی ہوگی۔دوسرے فیول جس پر بجلی بنائی جانی تھی وہ بھی صاف ظاہر ہے ڈالروں کے بدلے پاکستان لایا جانا تھا۔

یوں پہلی دفعہ پاکستان میں بجلی کے ریٹس کو ڈالرز کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ لوگوں کو علم نہ تھا اب وہ ڈالر مارکیٹ سے جڑ رہے تھے۔اب ڈالر کے اتار چڑھائو نے ہی ان کے پٹرول، ڈیزل، فیول اور ایل این جی گیس کی قیتموں کے فیصلے کرنے تھے۔قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اب ایک ہی حل تھا کہ پاکستان ایکسپورٹ کے زریعے ڈالرز زیادہ کمائے تاکہ ملک میں ڈالروں کی کمی نہ ہو، ایل سی کھلنے میں دقت نہ ہو جس سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے مضبوط رہے گا اور یوں جو تیل اور گیس ہم امپورٹ کریں گے اس کا اثر لوگوں کی روز مرہ زندگیوں پر نہیں ہوگا۔

اس کام کے لیے ایکسپورٹرز کو بہت سہولتیں دی گئیں جن میں مفت بجلی گیس تک شامل تھے۔ڈیوٹی معاف تاکہ یہ ڈالرز کما کر لائیں۔ برسوں بعد جب پانامہ سکینڈل سامنے آیااور ایف بی آر نے ان بزنس مینوں کو نوٹس کیے جن کی خفیہ جائیدادیں سامنے آئی تھیں جو انہوں نے بیرون ملک خریدی تھیں اور انہیں ایف بی ار سے چھپایا گیا تھا تو اکثر بزنس مین ان میں ایکسپورٹرز تھے جنہوں نے ڈالرز واپس لانے کی بجائے پیسہ وہیں پارک کیا۔ کئی نے وہیں جائیدادیں خرید لیں۔انوائس میں گڑ بڑ کی گئی۔

اب بینظیر بھٹو حکومت نے اپنے تئیں بجلی بحران حل کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کو ایسی آفرز کیں اور انہیں فی یونٹ وہ ریٹ دیا گیا جس کا اانہوں نے سوچا تک نہیں تھا۔ ایک رپورٹ مطابق انیس کے قریب پاور پلانٹس لگائے گئے جنہوں نے فیول پر بجلی پیدا کرنی تھی۔ان معاہدوں کی گارنٹی جہاں عالمی ادارے دے رہے تھے وہیں حکومت نے بھی گارنٹی دی اگر واپڈا نے انہیں بجلی کے بل کلیر نہ کئے تو وہ ریاست پاکستان ادائیگیاں کرے گی۔ان معاہدوں میں یہ بھی لکھا گیا حکومت پاکستان یا واپڈا کو ان پاور پلانٹس سے پیدا کی گئی ساری بجلی خریدنی ہوگی اور اگر نہ خریدی تو بھی انہیں پیدا شدہ بجلی کی ادائیگیاں کرنی ہوگی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اب واپڈا نے ملک بھر کی کل ضروریات کی ساٹھ فیصد بجلی ان پاور پلانٹس سے خریدنی تھی۔ یوں اب بجلی پیدا کرنے کا بڑا زریعہ فیول بن گیا۔ڈیم اور دیگر زرائع سے پیدا ہونے والی سستی بجلی اب کسی حکومت کی ترجیح نہیں تھی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پاور پلانٹس مالکان جن میں کچھ حکمرانوں کا بھی شئیر تھا کا اپنا مفاد اس میں تھا کہ پاور پلانٹس سے ہی بجلی خریدی جائے جو مہنگی تھی۔

یوں آپ دیکھیں تو نوے کی دہائی میں ڈیمز یا متبادل انرجی کے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا۔ اگر فائلوں میں کچھ کام ہوا تو بھی ان کی فیزیبلٹی رپورٹس پر اربوں روپے خرچ کر کے فائلیں بند کر دی گئیں۔ یوں ان سیاستدانوں اور بیوروکریسی اور کاروباریوں کے ہاتھ پیسہ کمانے کا نیا طریقہ ہاتھ آگیا کہ اب بجلی صرف فیول سے پیدا ہوگی اور ان پاور پلانٹس کو اس سے غرض نہیں تھی کہ واپڈا کو بجلی کی ضرورت ہے یا نہیں کیونکہ معاہدے کے تحت واپڈا نے ان سے ساری بجلی خریدنی تھی اور مہنگے ریٹس پر خریدنی تھی۔

ایک طرف مہنگی بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی جس کا اثر دھیرے دھیرے لوگوں کو محسوس ہونا تھا۔ دوسری طرف واپڈا نے اپنے لائن لاسز کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 

آفیشل اعدادوشمار بیس سے تیس فیصد تک دکھائے جاتے رہے لیکن حقیقت میں لائن لاسز چالیس فیصد تک پہنچ چکے تھے۔لائن لاسز زیادہ ہونے کی وجہ ٹرانسمشن لائنز کا بوسیدہ اور پرانا ہونا تھا۔ واپڈا ملازمیں کو کرڑوں یونٹس مفت مل رہے تھے۔ وہ بل بھی عوام سے لینا تھا۔اس ٹرانسمشن سسٹم کو جدید بنانے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔یوں سسٹم میں ہی بیس تیس فیصد تک بجلی ضائع ہورہی تھی۔ دوسری طرف واپڈا ملازمین نے بڑے بڑے فیکٹری مالکان اور عام لوگوں کو بجلی چوری کرنے کے طریقے سکھا دیے۔کنڈا سسٹم ایجاد ہوا۔بجلی چوری ہونا شروع ہوگئی۔بلوچستان اور خبیرپختون خواہ کے قبائلی اور کچھ اور علاقوں کے لوگوں نے بجلی کے بلز دینے سے انکار کر دیا اور وہاں اگر زبردستی کی جاتی تو لاء اینڈ آڈرز کا مسلہ پیدا ہورہا تھا۔پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں بجلی چوری ہورہی تھی تو خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بجلی کے بلز ہی ادا نہیں ہورہے تھے۔

مثال کے طور پر ایک ارب یونٹس پاور پلانٹس روزانہ اپنے سسٹم سے واپڈا کو بیچ رہے تھے تو ان میں سے صرف ساٹھ فیصد یونٹس کا بل واپڈا وصول کرپارہا تھا۔ چالیس فیصد ٹرانسمشن لائنز، واپڈا ملازمین فری بجلی،بجلی چوری اور بلز ادا نہ کرنے والے علاقوں میں ضائع ہورہا تھا۔اب یہ ان پاور پلانٹس کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ ان چالیس فیصد ضائع شدہ بجلی کا بل نہ لیں۔ اب واپڈا نے دو کام کرنے تھے۔ایک تو مہنگی بجلی کا بل لوگوں کو بھیجنا تھا اور دوسری طرف تیس چالیس فیصد کے قریب چوری یا ضائع ہونے والی بجلی یا جو لوگ بلز نہیں دے رہے تھے کا نقصان بھی پورا کرنا تھا۔اب یا تو حکومت بجلی کے ان تیس چالیس فیصد تک لائن لاسز، چوری یا بلوں کی عدم ادائیگی اپنے خزانے سے ادا کرتی رہتی (سبسڈی) تاکہ وہ کنزیومرز جو ایمانداری سے اپنے بل دے رہے تھے ان پر ان تیس چالیس فیصد کا بوجھ نہ پڑتا یا وہ چالیس فیصد لاسز کا بلز بھی انہی لوگوں سے مختلف ٹیکسز کے نام پر ہر ماہ وصول کرتے رہیں اور ہر ماہ تھوڑی تھوڑی فی یونٹس بجلی کی قیمت بڑھاتے رہیں تاکہ وہ چالیس فیصد تک کا خسارہ پورا ہوتا رہے۔

اب حکومتیں پھنس گئی تھیں کہ بجلی کی قیمت بڑھاتے ہیں تو احتجاج کا سامنا ہے اور ووٹ بنک متاثر ہوگا نہیں بڑھاتے تو بل اکھٹا ہوتا رہے جو سرکلر ڈیٹ بنے گا جس پر الٹا اربوں سود بھی ادا کرنا ہوگا اور اس سود کی ادائگی کے لیے بھی بجلی کی قیمت بڑھانا ہوگی۔

جب نواز شریف کی دوسری حکومت 1997 میں آئی تو پہلی دفعہ انکشاف ہوا کہ وہ معاہدے کن خطرناک شرائط پر کیے گئے تھے۔ پاکستانی کو جتنی بجلی کی ضرورت تھی اس سے زیادہ خریدی جارہی تھی۔ نواز شریف حکومت نے الزام لگایا ان یکطرفہ کنٹریکٹس میں پیسہ کھایا گیا تھا۔ان معاہدوں میں ریاست پاکستان کے ہاتھ پائوں باندھ کر کنڑیکٹ سائن ہوئے تھے۔اب حکومت وہ معاہدے کینسل کرتی تو پاور پلانٹس نے دھمکی دی وہ عالمی عدالت میں جا کر پاکستان پر مقدمے کر کے اربوں ڈالرز ہرجانہ وصول کریں گے۔1998 کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا واپڈا نے ان پاور پلانٹس کو ڈیرہ ارب ڈالرز کا بل ادا کرنا تھا اور تین سال بعد 2001 میں یہ بل 3.4 ارب ڈالرز تک پہنچ جانا تھا۔

وزیراعظم نواز شریف نے ان کنڑیکٹس میں بینظیر دور میں ہونے والی بدعنوانی کو مہنگی بجلی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ نواز حکومت کا کہنا تھا اتنی بڑی رقم سے تو حکومت پاکستان اپنے بیرونی قرضے واپس کرسکتی تھی،تیل گیس وغیرہ کی قیمتیں سستی کرسکتی تھی،تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھا سکتی تھی۔ بینظیر حکومت نے ان پاور پلانٹس سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کے معاہدے کیے تھے۔ جب کہ installed capacity اس وقت تین ہزار میگا واٹ سے زائد تھی۔ یوں زیادہ بجلی پیدا ہورہی تھی جس کی پاکستان کو ضرورت نہ تھی لیکن معاہدوں تحت حکومت نے وہ ساری بجلی خریدنی تھی۔

اب پاکستان کا حشر وہی ہوچکا تھا اگر معاہدے ختم کرتا ہے تو اربوں ڈالرز کے جرمانے عالمی عدالتوں سے فیس کرتا اور اگر معاہدے چلتے رہتے ہیں تو پھر بجلی نے مہنگا ہونا تھا۔ حالت وہی ہوچکی تھی کہ آگے کھائی تو پیچھے سمندر تھا۔

اگرچہ نواز شریف حکومت پیپلز پارٹی پر ان معاہدوں پر کرپشن کے الزامات لگا رہی تھی لیکن جب تیسری دفعہ حکومت ملی تو نواز شریف حکومت کے بڑے لوگوں نے ان پاور پلانٹس کو سرکلر ڈیٹ کی ادائیگیوں کے نام پر بڑا لمبا ہاتھ مارا ۔اسحاق ڈار نے حکومت ملتے ہی 2013 میں جس طرح ایک دن میں بغیر آڈٹ کرائے ان کمپمنیوں کو سب رولز کی خلاف ورزی کر کے 480 ارب روپے کی ادائیگی کرائی اس نے سب کو ششدر کر دیا۔

آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے اس میگا سکینڈل کی انکوائری شروع کر دی۔ اختر بلند رانا کو علم نہ تھا وہ مگرمچھوں ساتھ دشمنی ڈال رہے تھے جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

جاری

Comments

Popular posts from this blog

Top 10 bedtime habits you must avoid

کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے

Top 50 attitude bio ideas for boys in fancy words with cool emoji's